غزل۔ اتنے ڈرے ہوئے

غزل۔ اتنے ڈرے ہوئے Cover Image

اتنے ڈرے ہوئے ہیں کرب آگہی سے ہم

خود ہی لپٹ رہے ہیں تیری تیرگی سے ہم

 

بہلا رہی ہے پھر سے سگ دل کو وہ نظر

 تف ہےگُریز کر رہے ہیں خود کشی سے ہم

 

اے بحر بے کراں کوئی آواز مت اٹھا!

کہ آج مخاطب ہیں اپنی تشنگی سے ہم

 

نو سال سے لہو کا نشہ چھوڑ نہ پائے

اب کیا فرار پائیں گے اس شاعری سے ہم

 

محور بنائیں گے اسے دنیا کے کرب کا

مانگیں گے وہ خلا، خلاۓ دائمی سے ہم